اسلامی جمعیت … روشن مستقبل کی نوید

اسد علی قریشی۔معتمدِعام اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان

23 دسمبر 1947ء کو جمعیت کے ساتھ 25طلبہ تھے۔ آج لاکھوں طلبہ ہیں۔ اور اگر لاکھوں طلبہ نہ بھی ہوں تو بھی جمعیت کے ساتھ  76سال کی شاندار تاریخ ہے۔ ہمارے زمانے میں اجتماعیت کا یہ حال ہوگیا ہے کہ ان کے سلسلے میں 76ہفتے بھی ’’تاریخ‘‘ محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن جمعیت نے  76ہفتے نہیں  76 سال بسر کر کے دکھائے ہیں۔ لیکن جمعیت نے صرف وقت نہیں گزارا اس نے وقت کو بدلا بھی ہے۔
اسلامی جمعیت طلبہ نے جب اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تو اس کے لیے حالات سخت تھے۔ تعلیمی اداروں پر بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کا مکمل غلبہ تھا اور طلبہ میں اسلام کے حوالے سے نظریاتی جدوجہد کی کوئی نظیر موجود نہ تھی۔ ان حالات میں جمعیت نے چار چیزوں کو اپنی جدوجہد کی بنیاد بنایا۔(۱) تقویٰ(۲) نظریاتی جہت(۳) علم(۴) خدمت
اسلامی جمعیت طلبہ نے تقوی کے جس مفہوم کا ابلاغ کیا اسے آسان زبان میں نیک سیرت ہی کہا جاسکتا ہے۔ قومی سیاست کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے اس میں کسی کی نیک سیرت عرصے تک ایک راز رہ سکتی ہے مگرتعلیمی اداروں میں طلبہ کی سیاست کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کو چند ہفتوں میں اچھی طرح جان جاتے ہیں۔ چنانچہ تعلیمی اداروں میں نیک سیرت ہونے کانعرہ کوئی دھوکا تخلیق نہیں کرسکتا۔ اور یہ سیرت پہ مبنی کردار ہی طلبہ میںاس کی مقبولیت کا باعث بنا، جامعات میں جمعیت طلبہ سے زیادہ طالبات میں مقبول  رہی ہے اور اسلامی جمعیت طلبہ کو اپنی طویل تاریخ میں یہ شہادت تواتر کے ساتھ فراہم ہوئی۔
اسلامی جمعیت طلبہ نے نظریاتی بحران کے دور میں اپنے کام کی ابتداء کی۔ اس دور میں اہل اسلام کے دو بڑے مسائل

تھے۔ ایک یہ کہ انہوں نے اسلام کو عقائد، مساوات اور اخلاقیات تک محدود کر کے ریاست وسیاست، معیشت وثقافت سے اس کا تعلق منقطع کردیا تھا۔ ان کا دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ وہ یہ تو بتا رہے تھے کہ حق کیا ہے مگر وہ یہ نہیں بتا رہے تھے کہ عصر حاضر کا باطل کون ہے اور کیوں ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے اسلام کے حوالے سے معذرت خواہی کی نفسیات پر حملہ کیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے فکر مودودیؒ کے حوالے سے نوجوانوں کو بتایا کہ اسلام کوئی ماضی کی یادگار نہیں۔ وہ ہمارے حال اور مستقبل کی صورت گری کرنے والی قوت ہے۔ اور اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس فکر نے نوجوانوں کو اسلام پر فخر کرنا سکھایا۔  چنانچہ اسلامی جمعیت طلبہ نے دیکھتے ہی دیکھتے تعلیمی اداروں کے ماحول اور کلچر کو بدل کر رکھ دیا۔ یہ معمولی بات نہیں تھی۔ یہ تعلیمی اداروں میں برپا ہونے والا ایک ’’انقلاب‘‘ تھا۔ اس انقلاب نے لاکھوں نوجوانوں کی سمت صغر، نصب العین، مقاصد حیات اور ہیروز کو تبدیل کیا۔ یہ انقلاب اس لیے بھی انقلاب تھا کہ بائیں بازو کے طلبہ کو حکومت، ذرائع ابلاغ اور بین الاقوامی قوتوں کی سرپرستی حاصل تھی۔
مولانا مودودیؒ کی برپا کی ہوئی تحریک اپنے مقاصد میں ایک علمی تحریک ہے۔ چنانچہ اسلامی جمعیت طلبہ کی تنظیم تربیتی نظام اور مزاج پر طویل عرصے تک اس بات کا اثر رہا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے علم سے تعلق کا ایک پہلو یہ ہے کہ جمعیت نے صرف عام طلبہ کو متاثر نہیں کیا بلکہ اس نے ذہین طلبہ کی کثیر تعداد کو بھی اپنا ہمنوا بنایا۔

جمعیت نے نا صرف یہ کہ اپنی صفوں میں مطالعہ کے رجحان کو فروغ دیا بلکہ جمعیت کے رہنمائوں اور کارکنوں میں ایسے لوگوں کی قابل ذکر تعداد ہمیشہ موجود رہی ہے جو تعلیمی میدان میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے۔جمعیت کے نظریاتی پس منظر نے اسے ایسی سرگرمیوںکی طرف مائل کیا جو دیگر طلبہ تنظیموں کی سرگرمیوں سے مختلف اور طلبہ میںدلچسپی کا سامان  رہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جمعیت کی تاریخ مشاعروں، مباحثوں، کتب میلوں، مکالموں اور نوواردان کے خیر مقدم کو روایت بنانے کی تاریخ ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں