انحرافی جنسی رویوں کا نفسی معاشرتی ڈسکورس مذہبی بیانیہ اور +LGBTQ عیسائیت کے تناظر میں

 

اس عنوان پر اب تک کے سلسلہ مضامین میں مختلف نکات کے تحت انحرافی جنسی رویوں کے نفسی معاشرتی ڈسکورس کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جا چکا ہے۔ اس مضمون میں اس ڈسکورس کے تحت مذہبی بیانیہ پر کچھ باتیں عرض کی گئی ہیں۔

قارئین یہ بات اپنے ذہن میں تازہ کرلیں کہ انحرافی جنسی رویوں کا یہ ڈسکورس اصل میں مذہب مخالف ہے۔ اس ڈسکورس کے ماننے والے افراد اب تک یہ کہتے آئے ہیں کہ مذہب کی تعلیمات کے حوالے سے ان پر ظلم و ستم روا رکھا جاتا ہے۔ مذہبی تعلیمات صرف اور صرف جنسی دوئی کی حد تک جنسیت کے ساتھ تعامل (Interaction)کرتی ہیں اور اس جنسی دوئی کے باہر کے تمام افراد مذہبی تعلیمات کی رو سے مبغوض، گنہ گار اور مجرم قرار پاتے ہیں چاہے وہ ہم جنس پرست ہوں یا دیگر جنسی رخ رکھتے ہوں اور یہ مذہب کا ان افراد پر کھلا ہوا ظلم ہے۔

تاہم اب اس نریٹیو میں تیزی سے ایک تبدیلی آرہی ہے۔ اب یہ ڈسکورس بڑی چالاکی سے مذہب کے اصولوں سے استنباط کے راستے سے یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ مذہبی تعلیمات اصل میں انحرافی جنسی رویوں کے خلاف نہیں ہیں بلکہ ان تعلیمات کی تعبیر و تشریح اس انداز سے کی گئی ہے کہ وہ خلاف نظر آتی ہیں۔

یہ بات دل چسپ ہے کہ ابتدا میں اس ڈسکورس کی کوشش یہ تھی کہ کسی طریقے سے مذہبی تعلیمات کو مکمل طور پر غلط ثابت کر دیا جائے اور ساری دنیا میں اس بات کو عام کیا جائے کہ مذہب اصل مسائل کی جڑ ہے بطور خاص جنسیت کی دوئی کے ماسوا رویوں کے قبول عام کی راہ میں مذہب ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس میں اس ڈسکورس نے بڑی حد تک پیش رفت بھی کی۔ لیکن آخر کار جب اس نے یہ محسوس کیا کہ مذہب کے رول کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، تب اس نے بڑی چالاکی کے ساتھ اپنا رخ اس کے ساتھ مفاہمت اور اپنے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے والے بیانیوں کی طرف موڑ دیا۔

جنسی دوئی کے ماسوا رویے مذہب کے ساتھ کیسے تعامل کرتے ہیں؟ یہ موضوع غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے، کیوں کہ انسانی سماج میں مذہب کی اہمیت اب بھی بڑی حد تک مسلم ہے۔ اب بھی دنیا کی بڑی آبادی مذہب کو رسمی طور  پر سہی اہمیت تو دیتی ہے۔بالخصوص آسمانی مذاہب یا ساختی مذاہب جیسے عیسائیت، اسلام اور یہودیت کے حوالے سے اس ضمن میں کافی علمی و فکری سرمایہ ملتا ہے بطور خاص عیسائیت اور ہم جنس پرستی اور عیسائیت اور جنسیت پر غیر معمولی علمی و تحقیقی کاوشیں موجود ہیں۔ عیسائیت کے حوالے سے تمام علمی سرمائے کا جائزہ یہ دکھاتا ہے کہ اس طرح کی کاوشیں چار بڑے نقطہ ہائے نظر کے تحت سمیٹی جا سکتی ہیں۔

سب سے پہلا نقطہ نظر یہ ہے کہ بائبل ہم جنسیت اور دیگر جنسی انحرافی رویوں کے مکمل طور پر خلاف ہے۔ بائبل کی رو سے ہم جنسیت ایک قابل تعزیر جرم ہے اور یہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ یہ نقطہ نظر بائبل کی لفظی تشریح پر اصرار کرتا ہے اور جنسی دوئی کے تمام رویوں کو عیسائی تعلیمات کے خلاف اور حرام بتاتا ہے۔[1]

دوسرا نقطہ نظر وہ ہے جو بائبل کے الفاظ کی غیر لفظی تشریح کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اصل میں بائبل کے مصنفین ایک خاص سماجی اور ثقافتی منظرنامے سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے بائبل کے الفاظ پر نہ جا کر حضرت عیسی کا اصلی پیغام یعنی محبت و شفقت، عفو و درگزر اور اللہ کا اپنے بندوں سے محبت والا نقطہ نظر اصل ہے اس لیے الفاظ کے بجائے ان کی معنویت پر نظر رکھنی چاہیے۔[2]

تیسرا نقطہ نظر وہ ہے جو عیسائیت کے ایماگو دیئی (Image dei) کے عقیدے کا پرزور حامی ہے، اس کا ماننا یہ ہے کہ عیسائیت کی اصل روح دراصل اس فلسفے میں ہے کہ خدا کو انسان نے اپنی شبیہ میں بنایا ہے اس لیے انسان خدا کا پرتو ہے چناں چہ جنسی دوئی والے افراد ہوں یا ہم جنس پرست اور دیگر جنسی رویے اور صنفی شناخت رکھنے والے افراد ہوں یہ تمام کے تمام خدا کے بنائے ہوئے انسان ہیں جو خدا کی شبیہ میں ہیں اس لیے ان سے کسی قسم کا کوئی امتیازی سلوک نہیں روا رکھنا چاہیے بلکہ انھیں بھی خدا کا بنایا ہوا بندہ سمجھنا چاہیے اور ان کو اسی حالت میں قبول کرنا چاہیے جس حالت میں وہ ہیں۔[3]

چوتھا نقطہ نظر وہ ہے جو مذہب کو (اس معاملے میں عیسائیت کو) ذاتی تجربے کے پہلو سے دیکھتا ہے اور اس کے حاملین شخصی مذہب (personal religion) کے قائل ہیں۔ اس گروہ کا ماننا ہے کہ بائبل یا دیگر مذہبی کتابیں دراصل کسی سماجی نظام کے حوالے سے بات نہیں کرتی ہیں بلکہ یہ محض شخصی تعبیر پر منحصر کرتا ہے کہ آپ بائبل کے متن کو کس طرح پڑھتے ہیں۔[4]

عیسائیت اور انحرافی جنسی رویوں کے بیانیوں کو ہمارے نزدیک اوپر دیے گئے چاروں نکات کے تحت دیکھا جا سکتا ہے۔ اب ذیل میں ہر نقطہ نظر کے تحت مخالفین اور اس کے ماننے والے دونوں گروہوں کے دلائل کا ایک تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔

سب سے پہلے نقطہ نظر کے دلائل میں جانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اصل میں بائبل کہا کسے جاتا ہے اور بائبل کی کتنی اقسام ہیں۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس نقطہ نظر کے مخالفین بائبل کی مختلف اقسام اور اس کے مختلف تراجم کو اس نقطہ نظر کو رد کرنے کے لیے دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

بائبل کو روایتی طور پر عیسائی مذہبی پیروکار خدا کا الہامی کلام مانتے ہیں۔ لیکن اس کے مصنف کی حیثیت سے متعدد انسانی نام ہمیں ملتے ہیں۔ بائبل کو دو اہم حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

عہد نامہ قدیم (Old testament) اور عہد نامہ جدید (New testament)۔ عہد نامہ قدیم ان مذہبی متون پر مشتمل ہے جو یہودیت اور عیسائیت دونوں میں مقدس ہیں۔ اس میں پیدائش، خروج، لیویات، زبور، یسعیاہ اور بہت سی دوسری کتابیں شامل ہیں۔ جب کہ عہد نامہ  جدید یسوع مسیح کی زندگی، تعلیمات، موت اور جی اٹھنے کے ساتھ ساتھ ابتدائی مسیحی برادری  کے متعلق ہے۔ نئے عہد نامہ کی کتابوں میں انجیل (متی، مرقس، لوقا اور یوحنا)، رسولوں کے اعمال، خطوط اور وحی کی کتاب شامل ہے۔ اس کے علاوہ کیتھولک بائبل بھی ہے جس میں اضافی کتابیں شامل ہیں جنھیں ڈیوٹیروکونیکل کتابیں یا اپوکریفا کے نام سے جانا جاتا ہے۔

عہدنامہ جدید اور عہدنامہ قدیم کی بنیاد پر جدید دور میں بائبل کی مختلف قسمیں ہیں۔ جیسے کنگ جیمز ورژن (کے جے وی)، بین الاقوامی ورژن (این آئی وی)، نیو امریکن اسٹینڈرڈ بائبل (این اے ایس بی)، انگریزی معیاری ورژن (ای ایس وی)، نیا زندہ ترجمہ (New Live version)، نظر ثانی شدہ معیاری ورژن (آر ایس وی)، آج کا انگریزی ورژن (Today‘s English version)، نیا کنگ جیمز ورژن (New King James Version)۔ ان میں سے ہر ایک کا الگ منہج ہے۔ کہیں لفظی مفہوم ہے تو کہیں مجازی اور استعاراتی۔ انحرافی جنسی رویوں اور عیسائیت کے تعامل کے حوالوں سے مختلف عیسائی مصنفین اور انحرافی جنسی رویوں کے ڈسکورس کے حاملین بائبل کے مختلف ترجموں اور اس کے ورژن سے دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ (اس مضمون میں بیشتر حوالے این آئی وی سے لیے گئے ہیں)۔

واضح رہے کہ اوپر دی گئی بائبل کی مختلف اقسام کے حوالے سے لغوی معنی اختیار کرنے والوں پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اتنے سارے ورژن، اتنے سارے اقسام اور اتنے سارے مختلف نقطہ ہائے نظر ہونے کے باوجود آپ بائبل کے ایک ہی ورژن پر، ایک ہی ترجمہ پر اور ایک ہی لفظی تعبیر پر کیوں اصرار کرتے ہیں، لیکن اس کے بالمقابل لغوی معنی لینے والوں کی دلیل یہ ہے کہ آپ چاہے بائبل کے کسی بھی ترجمے کو لے لیجیے اور درج ذیل آیت/اقتباس کی تاویل کر کے بتائیے۔

پیدائش  2: 24 (عہد نامہ قدیم): [5]

’’پس مرد اپنے باپ اور اپنی ماں کو چھوڑ کر اپنی بیوی کو مضبوطی سے پکڑے گا اور وہ ایک جسم بن جائیں گے۔‘‘

آرتھوڈوکس مسیحی تشریح اس خیال پر زور دیتی ہے کہ شادی کا مقصد مرد اور عورت کے درمیان اتحاد ہے۔ اس آیت کو اکثر شادی کی بنیادی تفہیم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

بائبل کے لغوی معنی پر اصرار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ بالکل صریح تعلیم ہے کہ مرد اور عورت کی شادی کے سوا کسی اور جنسی تعلق یا خاندان بنانے کی کوئی اور صورت نہیں ہے۔ اسی طرح وہ عہد نامہ قدیم سے درج ذیل آیت لے کر آتے ہیں۔

پیدائش 18: 22 (عہد نامہ قدیم): [6]

’’تم مرد کے ساتھ اس طرح سے نہ لیٹو(یعنی ہم بستری کرو) جیسے عورت کے ساتھ یہ ایک ناجائز فعل ہے۔‘‘

اس آیت میں بالکل صاف یہ کہا گیا ہے کہ جائز جنسی تعلق صرف مرد کا عورت سے ہوسکتا ہے۔

لیویٹیکل قانون کی اس آیت کو ہم جنس پرستوں کے رویے کے خلاف بحث کرنے کے لیے سب سے اہم حوالہ مانا جاتا ہے۔

اسی طرح سے اس نقطہ نظر کے ماننے والے عہد نامہ جدید سے بھی درج ذیل آیت کو ہم جنس پرستی اور دیگر انحرافی جنسی رویوں کی ممانعت سمجھتے ہیں۔

رومن (1: 26-27) عہد نامہ جدید: [7]

’’اس وجہ سے خدا نے انھیں ناپسندیدہ جذبات کے سامنے چھوڑ دیا۔ کیوں کہ ان کی عورتوں نے  فطری تعلقات کا تبادلہ عورتوں سے کیا جو فطرت کے منافی ہے۔ اور اسی طرح مردوں نے عورتوں کے ساتھ فطری تعلقات کو ترک کر دیا اور ایک دوسرے کے لیے جنون میں مبتلا ہو گئے، مرد مردوں کے ساتھ بے شرمی کا ارتکاب کرتے ہیں اور اپنی غلطی کی سزا اپنے آپ میں وصول کرتے ہیں۔‘‘

لفظی تشریح والوں کا کہنا ہے کہ یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ مرد ہم جنس پرستی اور عورت ہم جنس پرستی دونوں غلطیاں ہیں جس کی سزا اس کے ارتکاب کرنے والے افراد کو دی جائے گی۔

اسی طرح سے ایک اور آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے۔

کرنتھیوں 6: 9-10 (عہد نامہ جدید): [8]

’’کیا تم نہیں جانتے کہ ظالم خدا کی بادشاہی کے وارث نہیں ہوں گے؟ دھوکہ نہ دو:  نہ جنسی طور پر غیر اخلاقی عمل اختیار کرو، نہ مشرک بنو اور نہ ہی ہم جنس پرستی کرنے والے مرد…‘‘۔

اس اقتباس میں ایسے رویوں کی فہرست دی گئی ہے جو ناپاک سمجھے جاتے ہیں، اور ان میں ہم جنس پرستی کا حوالہ بھی شامل ہے۔

اوپر دیے گئے تمام حوالوں کو دیکھ کر بادی النظر میں یہ لگتا ہے کہ بائبل کی لغوی تشریح یقینًا جنسی انحرافی رویوں کے حوالے سے بالکل واضح ہے اور اگر لغوی معنوں پر جو کہ بہت حد تک صحیح نظر آ رہے ہیں، نظر ڈالی جائے تو جو بیانیہ تشکیل پاتا ہے وہ یہ ہے کہ بائبل دراصل جنسی دوئی کے خانے ہی میں جنسیت کو دیکھتی ہے اور اس میں انحرافی جنسی رویوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن جدید دور میں عیسائی مفسرین، مبلغین اور شارحین کا ایک بڑا گروہ ہے جو اس ڈسکورس کے سیاسی اور سماجی دباؤ کے چلتے بائبل کے لغوی معنوں اور لفظی مفہوم کے بجائے اس کے اصل پیغام کو مسیحی احکام و تعلیمات کی بنیاد بنانے کا قائل ہے۔ یہ وہ دوسرا گروہ ہے جس کا تذکرہ اوپر آ چکا ہے۔ اور اس کے مطابق عیسی علیہ السلام کے اصل پیغام یعنی محبت و شفقت اور عفو و درگزر کو نظر میں رکھنا چاہیے اور بائبل کے لغوی معنوں پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے طرزِ استدلال کو سمجھنے کے لیے ذیل میں کچھ مثالیں دی جاتی ہیں:

کرنتھیوں 13: 4-7 (عہد نامہ جدید): [9]

’’محبت صبر ہے، محبت مہربان ہے … وہ غلط کاموں پر خوش نہیں ہوتا۔‘‘

غیر لفظی تشریح:  محبت، جیسا کہ ان آیات میں بیان کیا گیا ہے، ہمیں صبر اور مہربان ہونے کی دعوت دیتی ہے۔ یہ آیت ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اس محبت کو سب تک پھیلائیں اور انسانی تعلقات کے تنوع کو گلے لگائیں. یہ آیت ہمیں رشتوں کی نوعیت پر فیصلہ کرنے کے بجائے محبت کی خصوصیات پر توجہ مرکوز کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ افراد کا صنفی یا جنسی رخ خواہ کچھ ہو ہمیں ان سے محبت کرنا ہوگی کیوں کہ محبت عیسائیت کا جز لاینفک ہے۔ اس لیے غلط کاموں کی فہرست طویل کرنے کے بجائے یہ کوشش ہونی چاہیے کہ تمام جنسی رخ یا صنفی رخ رکھنے والے افراد سے محبت کی جائے اور یہ محبت بغیر کسی شرط کے ہو۔

گنتی 3: 28 (عہد نامہ جدید): [10]

’’نہ کوئی یہودی ہے نہ یونانی، نہ کوئی غلام ہے اور نہ آزاد، کوئی مرد اور عورت نہیں ہے، کیوں کہ تم سب مسیح یسوع میں ایک ہو.‘‘

غیر لفظی تشریح:  یہ آیت واضح طور پر کہہ رہی ہے کہ مرد اور عورت جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی، اس سے معلوم ہوا کہ مرد اور عورت کی دوئی سماج کا گھڑا ہوا تصور ہے۔ بلکہ بائبل کی یہ آیت تو کہتی ہے کہ صنف اور جنسی دوئی سے آگے بڑھ کر نہ کوئی مرد ہے اور نہ کوئی عورت، بلکہ سب کے سب یسوع مسیح کا حصہ ہیں۔ یہ آیت سماجی امتیازات سے بالاتر ہوکر مساوات  کا درس دیتی ہے حتی کہ یہ تمام نوع انسانی کو برابر بتاتی ہے، قطع نظر اس کے کہ ان کا جنسی رجحان یا صنفی شناخت کچھ بھی ہو۔

متی 22: 37-39 (نیا عہد نامہ):  [11]

’’خداوند اپنے خدا سے محبت کرو … اپنے ہمسائے سے اپنے جیسا پیار کرو۔‘‘

غیر لفظی تشریح:  یہ ہمیں ترغیب دیتی ہے کہ ہم جس طرح اپنے خدا سے محبت کرتے ہیں اسی طرح اپنے پڑوسیوں سے بھی محبت کریں چاہے ان کا صنفی رجحان کچھ بھی ہو۔ یہ تشریح ہمیں ہر شخص کو انسانیت کی نظر سے دیکھنے اور انھیں اس محبت کے ساتھ گلے لگانے کی ترغیب دیتی ہے۔

پیدائش 2: 18 (عہد نامہ قدیم):[12]

’’پھر خداوند خدا نے کہا، ’یہ اچھا نہیں ہے کہ آدمی اکیلا رہے۔ میں اسے ایک مددگار بناؤں گا جو اس کے لیے موزوں ہو۔‘‘

غیر لفظی تشریح:  صحبت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، خدا نے متنوع افراد پیدا کیے، جن میں سے ہر ایک منفرد خصوصیات کا حامل ہے۔ یہ خصوصیات داخلی اور خارجی نوعیت کی ہو سکتی ہیں اور جنسی رخ اور صنفی رخ کے حوالے سے بھی ہو سکتی ہیں، چناں چہ ہر فرد مختلف ہے اور ہر فرد خاص ہے۔ اس آیت میں انسانی رشتوں کی ایک وسیع دنیا وجود میں آسکتی ہے جس میں مختلف خصوصیات رکھنے والے افراد اپنی جیسی خصوصیت رکھنے والے افراد کے مددگار بن سکتے ہیں، بشمول ہم جنس پرست جوڑوں کے، جو تمام جوڑوں کی طرح ایک دوسرے کو محبت اور مدد فراہم کر سکتے ہیں۔

سموئیل 16: 7 (عہد نامہ قدیم): [13]

’’لیکن خداوند نے سموئیل سے کہا، ’’اس کی ظاہری شکل اور اس کے قد کی اونچائی کو مت دیکھو کیوں کہ میں نے اسے جھٹلایا ہے۔ خداوند اس طرح نہیں دیکھتا جیسا انسان دیکھتا ہے۔ انسان ظاہری شکل کو دیکھتا ہے، لیکن خداوند دل کو دیکھتا ہے۔‘‘

غیر لفظی تشریح:   خدا کی نظر میں، کسی فرد کی قدر و قیمت کا تعین اس کے جنسی رجحان یا صنفی شناخت سے نہیں ہوتا ہے۔ یہ آیت ہمیں لوگوں کے اندرون کو دیکھنے کی طرف ابھارتی ہے نہ کہ ان کے ظاہری صنفی اور جنسی رجحان کی طرف۔ اس آیت کی رو سے ہر شخص کی اپنی ایک اہمیت ہے، اس سے قطع نظر کہ وہ کون سا جنسی رجحان رکھتا ہے۔

اعمال 10: 34-35 (عہد نامہ جدید): [14]

’’اس نے کہا:  ’’میں سمجھتا ہوں کہ خدا کسی جانب داری کا مظاہرہ نہیں کرتا، لیکن ہر قوم میں جو کوئی اس سے ڈرتا ہے اور صحیح کام کرتا ہے وہ اس کے لیے قابل قبول ہے۔‘‘

غیر لفظی تشریح:  اس اقتباس میں انسانی سماج میں موجود تنوع کو  تسلیم کرتے ہوئے یہ بیان کیا گیا ہے کہ اصل کسوٹی خداوند سے ڈر کر سچے اور صحیح کام کرنے میں ہے اور اس کے علاوہ جو جہاں بھی ہے جس حیثیت میں بھی ہے جس جنسی رخ اور جنسی رجحان کے ساتھ ہے وہ خدا کے لیے قابل قبول ہے اگر وہ اس سے ڈرتے ہوئے اپنی زندگی گزارے۔ اس میں تمام جنسی رجحانات اور صنفی شناخت کے افراد بھی شامل ہیں۔ وہ تمام لوگ جو خدا کے ساتھ تعلق بنانا چاہتے ہیں خدا ان کا خیر مقدم کرتا  ہے اور انھیں گلے لگاتا ہے۔

یوحنا  4: 7-8 (عہد نامہ جدید): [15]

’’پیارے، ہم ایک دوسرے سے محبت کریں، کیوں کہ محبت خدا کی طرف سے ہے، اور جو محبت کرتا ہے وہ خدا سے پیدا ہوا ہے اور خدا کو جانتا ہے۔ جو شخص محبت نہیں کرتا وہ خدا کو نہیں جانتا کیوں کہ خدا محبت ہے۔‘‘

غیر لفظی تشریح:  محبت کا یہ طاقتور پیغام عالمی سطح پر لاگو ہوتا ہے۔ مسیحی ہونے کے ناطے، ہر مسیحی اس بات کے لیے پابند ہے کہ تمام مخلوقات خداوندی سے بلا امتیاز جنس، مذہب، رنگ و نسل اور بلا امتیاز جغرافیائی خطہ محبت کرے۔ محبت کے اس عالمی اصول پر  عمل کرتے ہوئے، ہم +LGBTQ افراد کی فطری افادیت کی تصدیق کرتے ہیں اور انھیں خدا کی تخلیق کے  مظہر کے طور پر دیکھتےہیں۔

یہاں ایک دل چسپ نکتے کی وضاحت بہت ضروری ہے۔ اس ڈسکورس کی ابتدا میں ہم نے قدرے تفصیل سے اس کی وضاحت کی تھی کہ انحرافی جنسی رویوں کے سلسلے میں دو انتہائی نقطہ نظر پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ پیدائشی ہے یعنی جینیاتی طور پر یہ رویے فیصل ہوتے ہیں، دوسرا یہ ہے کہ یہ تمام کے تمام ماحول کی دین ہیں۔ ہم نے دونوں گروہوں کے دلائل کا بھی جائزہ لیا تھا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ دراصل انحرافی جنسی رویے تمام کے تمام نہ مکمل طور پر پیدائشی یا جینی سطح پر فیصل ہوتے ہیں نہ کامل طور پر ماحول کی دین ہیں بلکہ یہ ان دونوں کے تعامل کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔ اب یہاں قارئین اس نکتے کے تحت بہت بنیادی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر ایک بار یہ مان لیا جائے کہ تمام انحرافی جنسی رویے اصل میں فطری یا پیدائشی ہیں تو بائبل کی رو سے اگر کوئی پیدائشی طور پر ہی ایسا ہے تو اسے ویسا کا ویسا ہی قبول کرنا ہوگا کیوں کہ یہی عیسائیت کی تعلیم ہے اور اسے خدا نے ویسا ہی بنایا ہے۔ لیکن جیسے ہی آپ اس میں ماحول اور انسانی دخل کو جوڑ دیتے ہیں تو آپ کو یہ ماننا پڑے گا کہ یہ بھی دیگر تمام خرابیوں کی طرح ہے اور اس کے سلسلے میں ہمیں اسی طریقے سے پیش آنا پڑے گا جیسے ہم دوسری خرابیوں کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ اسی لیے اس ڈسکورس کا سب سے زیادہ زور اس بات پر ہے کہ انحرافی جنسی رویہ رکھنے والے افراد ویسے ہی پیدا ہوتے ہیں، وہ جینی اعتبار سے ویسے ہی ہوتے ہیں یا فطری طور پر وہ مجبور ہوتے ہیں، وغیرہ۔

یوحنا  13: 34-35 (عہد نامہ جدید): [16]

’’میں تمھیں ایک نیا حکم دیتا ہوں کہ تم ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ جس طرح میں نے تم سے محبت کی ہے اسی طرح تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ اس سے سب لوگ جان لیں گے کہ اگر تم ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہو تو تم میرے شاگرد ہو۔

غیر لفظی تشریح:  اس آیت میں مسیحی شاگردی کی ایک واضح خصوصیت کا تذکرہ کیا گیا ہے اور وہ محبت ہے۔محبت پر زور دینا یہاں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ آیت ایک ایسے ماحول کو فروغ دیتی ہے جہاں تمام افراد، جنسی رجحان یا صنفی شناخت سے قطع نظر، ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہوں اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوں۔

درج بالا تمام آیتیں وہ گروہ پیش کرتا ہے جو بائبل کے لفظی معنی کے بجائے بائبل کے اصل پیغام (محبت) کو احکام کی بنیاد بنانے کی وکالت کرتا ہے۔

اب ذیل میں وہ آیتیں پیش کی جاتی ہیں جو تیسرا گروہ پیش کرتا ہے:

ایماگو دیئی یا خدا کی شبیہ کا تصور عیسائیت میں ایک بنیادی مذہبی اصول ہے۔ اس کی پشت پر یہ عقیدہ ہے کہ تمام انسان خدا کی صورت میں پیدا کیے گئے ہیں، جو فطری وقار، قدر اور الہی مقصد سے مالا مال ہیں۔ مسیحی مذہبی فریم ورک کے اندر ایماگو دیئی اور +LGBTQکورس میں یہ تصور بہت اہم رول ادا کرتا ہے کیوں کہ اگر خدا نے انسان کو اپنی شبیہ میں بنایا ہے تو چاہے وہ دو جنسی ہو یا ہم جنس پرست، سب کے سب اصل میں خدا کا پرتو ہیں اس لیے ان سے کسی امتیاز کے بغیر محبت کرنی چاہیے۔ انھیں قابل تعزیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ انھیں مذہب سے بے دخل نہیں کرنا چاہیے۔  کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں:

پیدائش 1: 26-27 (عہد نامہ قدیم): [17]

’’پھر خدا نے کہا، ’’آؤ ہم انسان کو اپنی شبیہ کے مانند بنائیں۔ پس خدا نے انسان کو اپنی شبیہ میں پیدا کیا اور  مرد اور عورت کو اس نے اپنی شبیہ میں پیدا کیا۔‘‘

غیر لفظی تشریح:  صنف اور جنسی رجحان سے قطع نظر یہ آیت تمام انسانوں کی مساوات اور مشترکہ وقار کی حمایت کرتی ہے۔ اس کی مسیحی تفہیم یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں خدا کی شبیہ رکھتے ہیں۔ +LGBTQافراد کے تناظر میں، اس اصول کو اس باور کرانے کے لیے پیش کیا جاتا ہے کہ متنوع جنسی رجحانات اور صنفی شناخت کے لوگ بھی خدا کی شبیہ کی عکاسی کرتے ہیں۔

گنتی  3: 28 (عہد نامہ جدید): [18]

’’نہ کوئی یہودی ہے نہ یونانی، نہ کوئی غلام ہے اور نہ آزاد، نہ کوئی مرد اور نہ عورت، کیوں کہ تم سب یسوع مسیح میں ایک ہو۔‘‘

غیر لفظی تشریح:  اس آیت کو دوسرا اور تیسرا گروہ اپنے اپنے ایجنڈے اور نقطہ نظر کو تقویت دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ آیت دراصل عیسائی ورلڈ ویو میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس کی رو سے  انسان اصلًا مختلف نہیں ہیں بلکہ سب یسوع مسیح کی اولاد ہیں اور انھی میں سے ہیں (عیسائیت کے تناظر میں)

عہد نامہ جدید کی یہ آیت سماجی اور صنفی امتیازات سے بالاتر ہو کر مسیح پر ایمان اور انسانی اتحاد پر زور دیتی ہے۔

مذہبی نقطہ نظر سے، ایماگو دیئی کا تصور یہ تجویز کرتا ہے کہ ہر شخص کی فطری افادیت اور وقار، بشمول +LGBTQ افراد، خدا کی شبیہ میں تخلیق کردہ مخلوق کے طور پر مسلم ہے۔ تنوع کو گلے لگانا اور ایک جامع کمیونٹی کو فروغ دینا ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ یہاں اس بات پر زور دینا ضروری ہے کہ اگرچہ عیسائیت کے اندر مختلف آیتوں کی تشریحات مختلف ہوتی ہیں، لیکن کچھ عیسائی مذہبی ماہرین اور مسیحی برادریاں +LGBTQ افراد کے لیے محبت، قبولیت اور شمولیت کی اہمیت پر زور دیتی ہیں، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ وہ بھی خدائی شبیہ کی عکاسی کرتے ہیں اور وقار و احترام کے مستحق ہیں۔

زبور 139: 13-14 (عہد نامہ قدیم): [19]

’’کیوں کہ تو نے میرے اندرونی حصے بنائے ہیں۔ تو نے مجھے میری ماں کے پیٹ میں اکٹھا کیا۔ میں تیری تعریف کرتا ہوں، کیوں کہ میں حیرت انگیز طور پر بنایا گیا ہوں. تیرے کام حیرت انگیز ہیں۔ میری روح اسے اچھی طرح جانتی ہے۔‘‘

غیر لفظی تشریح:  زبور کی یہ آیت خدا کی تخلیق کی عظمت کا اظہار کرتی ہے اور خدا کی طرف سے ہر شخص کو تخلیق کرنے کے انوکھے طریقے کو تسلیم کرتی ہے۔ ایماگودیئی نقطہ نظر کے ماننے والے +LGBTQ افراد پر اس کا اطلاق کرتے ہوئے، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خدا نے انھیں حیرت انگیز طور پر بنایا ہے، اور ان کی شناخت کو تخلیق کی رنگا رنگی (Tapestry ) کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، اس لیے ان افراد کو مختلف نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ خدا کی تخلیق کے عظمت کی نشانی سمجھنا چاہیے۔

1 کرنتھیوں 12: 12-13, 27 (عہد نامہ جدید):[20]

’’کیوں کہ جس طرح جسم ایک ہے اور اس کے بہت سے اعضاء ہیں، اور جسم کے تمام اعضاء، اگرچہ بہت سے ہیں، ایک جسم ہے۔ اسی طرح یہ مسیح کے ساتھ ہے… کیوں کہ ایک روح میں، ہم سب کو ایک جسم میں بپتسمہ دیا گیا تھا – یہودی یا یونانی، غلام یا آزاد – اور سب کو ایک روح سے سیراب ہونے لیے بنایا گیا تھا … اب تم مسیح کا جسم ہو اور انفرادی طور پر اس کے اعضاء ہو۔‘‘

غیر لفظی تشریح:  یہ  آیت جسم کے متنوع اعضاء کا مسیح کے جسم میں پائے جانے والے  اتحاد سے موازنہ کرتا ہے۔ یہ آیت اس ورلڈ ویو کے ایک اہم نقطے کی تائید کرتی ہے کہ انسانی برادری کا ہر رکن اس میں موجود اختلافات سے قطع نظر، جسم کی مجموعی صحت اور افعال میں حصہ  دار ہے بشمول +LGBTQ افراد کے۔

رومیوں 2: 11 (عہد نامہ جدید): [21]

’’کیوں کہ خدا کوئی جانب داری نہیں دکھاتا۔‘‘

یہ مختصر بیان خدا کی غیر جانب داری کی نشان دہی کرتا ہے۔ +LGBTQ افراد پر اس کا اطلاق بتاتا ہے کہ خدا کی محبت اور قبولیت جنسی رجحان یا صنفی شناخت کی بنیاد پر امتیاز ی سلوک کے بغیر سب تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ مسیحیوں کو چیلنج کرتا ہے کہ وہ اپنے رویوں اور اعمال میں خدا کی غیر جانب داری کی عکاسی کریں۔

اس طرح ایماگو دیئی کے نقطہ نظر کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے انحرافی جنسی رویوں کا ڈسکورس بائبل ے مذہبی بیانیے کو انحرافی جنسی رویہ رکھنے والے افراد کے لیے معتدل بنانے کی کوشش کرتا ہے۔

اب چوتھا اور آخری نقطہ نظر بیان کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ عیسائی مصنفین اور افراد قابل ذکر ہیں جو انحرافی جنسی رویہ رکھتے ہیں اور انھوں نے اس پہلو سے ایک وسیع لٹریچر تشکیل دیا ہے۔ اس لٹریچر کو بھی کئی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اس کا جائزہ ہمیں اس نقطہ نظر تک پہنچاتا ہے جو آج کل مغرب اور مشرق میں یکساں طور پر مقبول ہو رہا ہے اور وہ شخصی مذہب (personal religion) کا نقطہ نظر ہے جس کی رو سے مذہب کی تعبیر اور تشریح انفرادی حق ہے۔ ایک فرد مذہب کو کیسے سمجھتا ہے یہ اس کا اور اس کے تخلیق کرنے والے کا معاملہ ہے۔

یہاں قاری اس نقطہ نظر کو مذہب بمعنی پرائیویٹ معاملہ نہ سمجھیں۔ مذہب ایک نجی معاملہ ہے یہ ایک سیکولر تعبیر ہے۔ یہاں شخصی مذہب سے مراد مذہب کی وہ تعبیر اور تشریح ہے جو فرد خود کرتا ہے اور یہ تشریح کسی عالم، پادری یا مذہبی ماہر کی مداخلت کے بغیر ہوتی ہے، یعنی جب مذہب کے متون جیسے کتاب، وحی اور نبی کی تعلیمات کو بغیر کسی شارح کے خود پڑھ کر سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔

اس نقطہ نظر کے ماننے والے لوگ بہت زیادہ آیتیں اپنی تائید میں پیش نہیں کرتے بلکہ وہ عام طور پر درج ذیل ایک آیت سے استدلال کرتے ہیں۔

کرنتھیوں 13: 4-8 (عہد نامہ جدید):[22]

’’محبت صبر کرنے والی اور مہربان ہوتی ہے۔ محبت حسد یا غرور نہیں ہے۔ یہ مغرور یا بدتمیز نہیں ہے. وہ اپنے طریقے پر اصرار نہیں کرتا۔ وہ چڑچڑا یا ناراض نہیں ہے۔ وہ ظلم پر خوش نہیں ہوتا بلکہ سچائی سے خوش ہوتا ہے۔‘‘

اس آیت میں یسوع مسیح  کو محبت سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کے لیے ثبوت اور حوالے موجود ہیں کہ یسوع مسیح دراصل محبت ہی ہیں۔ اس نقطہ نظر کے حاملین کہتے ہیں کہ بائبل کی وہ تشریح جو علما اور مفسرین کرتے ہیں وہ اصل میں ان کا اپنا استدلال اور استنباط ہے۔ لیکن اصل میں یہ آیت واضح طور پر بتا رہی ہے کہ وہ یعنی یسوع مسیح کسی ایک طریقے پر اصرار نہیں کرتے، وہ چڑچڑے اور ناراض نہیں ہوتے، وہ ظلم کو پر خوش نہیں ہوتے، وہ سزا دینے پر خوش نہیں ہوتے، بلکہ وہ تو مہربان ہیں، وہ حسد نہیں کرتے ہیں، وہ غرور نہیں کرتے ہیں، یعنی کسی ایک صنف پر غرور کسی ایک جنس کا امتیاز، کسی ایک جنسی رخ پر غرور، کسی ایک جنسی رخ کو صحیح سمجھنا۔ اس طریقے سے یہ گروہ اپنے دلائل کو لاتا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ بائبل کو کوئی شخص خود کیسے سمجھتا ہے یہ زیادہ اہم ہے بجائے اس کے کہ بائبل کو کوئی عیسائی شارح یا پادری کیسے سمجھتا اور سمجھاتا ہے۔

اوپر دیے گئے جائزے کی روشنی میں عیسائیت کے حوالے سے انحرافی جنسی رویوں کے ڈسکورس اور تعامل کا خلاصہ درج ذیل نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے۔

بائبل کی لغوی تشریح کسی بھی طرح کی جنسیت کے انحرافی مظاہر کو تسلیم نہیں کرتی ہے، بلکہ ہم جنس پرستی کے سلسلے میں واضح طور پر اس کے جرم ہونے اور قابل تعزیر ہونے اور اسے ناپسندیدہ سمجھے جانے پر اصرار کرتی ہے۔

چوں کہ بائبل کے الفاظ ساتھ نہیں دیتے، اس لیے الفاظ سے ماورا جاکر بائبل کی عمومی تعلیمات میں انحرافی جنسی رویوں کے لیے بطور خاص ہم جنس پرستی رویوں کے لیے گنجائش نکالنے کی کوشش کی گئی ہے۔

چوں کہ بائبل قرآن کی طرح ایک نہیں ہے اور اس کا یہ دعوی بھی نہیں ہے کہ وہ خالصتًا خداوند کا کلام ہے اس لیے اس کے الفاظ و معنی میں اختلاف ہونے کی پوری گنجائش موجود ہے۔

بائبل کے انحراف پسند مفسرین، شارحین اور مبلغین عیسائیت کے محبت کے فلسفے کی آڑ میں انحرافی جنسی رویوں کو عیسائی مذہب میں قبولیت دلوانے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔

عیسائیت کے تناظر میں ایک بڑا علمی سرمایہ ان افراد کے ذریعے وجود میں آیا ہے جو بجائے خود انحرافی جنسی رویے جیسے ہم جنس پرستی یا دو جنس پرستی میں ملوث ہیں۔

جنسی دوئی کے حوالے سے عیسائیت میں موجود خاندانی نظام کی واضح ہدایات کے باوجود اور عورت اور مرد پر مبنی خاندان کے حوالے سے بہت واضح آیات کے باوجود ہم جنس پرست جوڑوں کے لیے محبت اور اماگو دیئی کے فلسفے کی آڑ لیتے ہوئے ایک بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش صاف نظر آتی ہے۔

بائبل میں ہم جنس پرستی یا دیگر انحرافی جنسی رویوں کے حوالے سے سزا اور تعزیر کے احکام کے حوالے سے قابل ذکر مواد موجود نہیں ہے۔

حوالہ جات

[1] Mbuwayesango, Dora R., ‘Sex and Sexuality in Biblical Narrative’, in Danna Nolan Fewell (ed.), The Oxford Handbook of Biblical Narrative, Oxford Handbooks (2016; online edn, Oxford Academic, 3 Feb. 2015), https://doi.org/10.1093/oxfordhb/9780199967728.013.39,  accessed 15 Dec. 2023.

[2] Anderson, Cheryl, Ancient Laws and Contemporary Controversies: The Need for Inclusive Biblical Interpretation (New York, 2009; online edn, Oxford Academic, 1 Feb. 2010), https://doi.org/10.1093/acprof:oso/9780195305500.001.0001 , accessed 5 Dec. 2023.

[3] Robert E. Shore-Goss, Thomas, Bohache, Patrick S. Cheng, and Mona West, Editors: Queering ChristianityFinding a Place at the Table for LGBTQI Christians: USA 2013, Praeger, An Imprint of ABC-CLIO, LLC,ABC-CLIO, LLC 130 Cremona Drive, P.O. Box 1911,Santa Barbara, California 93116-1911

[4] Jeff chu :Does Jesus Really Love Me?: A Gay Christian’s Pilgrimage in Search of God in America 2014‎ Harper Perennial; USA  Reprint edition (15 April 2014 (https://doi.org/10.1093/acprof:oso/9780195305500.001.0001,   accessed 5 Dec. 2023.

[5] https://www.biblegateway.com/passage/?search=Genesis%202%3A24‘version=NIV

[6] https://www.biblegateway.com/passage/?search=Leviticus%2018%3A22‘version=ESV

[7] https://www.biblegateway.com/passage/?search=Romans%201%3A26-27‘version=NIV

[8] https://www.biblegateway.com/passage/?search=1%20Corinthians%206%3A9-10‘version=NIV

[9] https://www.biblegateway.com/passage/?search=1%20Corinthians%2013%3A4-7‘version=NIV

[10] https://www.biblegateway.com/passage/?search=Galatians%203%3A28‘version=NIV

[11] https://www.biblegateway.com/passage/?search=Matthew%2022%3A37-39‘version=NIV

[12] https://www.biblegateway.com/passage/?search=Genesis%202%3A18‘version=NIV

[13] https://www.biblegateway.com/passage/?search=1%20Samuel%2016%3A7‘version=NIV

[14] https://www.biblegateway.com/passage/?search=John%2013%3A34-35‘version=NIV

[15] https://www.biblegateway.com/passage/?search=1%20John%204%3A7-8‘version=NIV

[16] https://www.biblegateway.com/passage/?search=John%2013%3A34-35‘version=NIV

[17] https://www.biblegateway.com/passage/?search=Romans%201%3A26-27‘version=NIV

[18] https://www.biblegateway.com/passage/?search=Galatians%203%3A28‘version=NIV

[19] https://www.biblegateway.com/passage/?search=Psalm%20139%3A13-14‘version=NIV

[20] https://www.biblegateway.com/passage/?search=1%20Corinthians%2012%3A12-27‘version=NIV

[21] https://www.biblegateway.com/passage/?search=Romans%202%3A11‘version=NIV

[22] https://www.biblegateway.com/passage

اپنا تبصرہ لکھیں