این جی اوز کے معاشرے پر اثرات

بابر فاروقی

ہمارا معاشرہ، اور ہماری تہذیب جس تیزی کے ساتھ تنزلی کا شکار ہے اْس کی سب سے بڑی وجہ معاشرتی عدم مساوات کے ساتھ ساتھ افراد کی تربیت کا فقدان بھی عدم برداشت کا باعث ہے، جس میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے اور عدم برداشت دین سے دوری کا سبب بھی ہے، اور ایسے منفی سوچ رکھنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کو یہ آزاد خیال این جی آوز اپنے جال میں پھنسا کر ان سے اپنے مقاصد پورے کرتی ہیں، ان کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں مایوسی پھیلائی جائے اور سیکولرزم یا دہریت کی راہ ہموار کی جائے، اپنے ان عزائم کو پورا کرنے کے لیے کوئی کلچر ڈے منا رہا ہے، کوئی مدر ڈے منا رہا ہے، کوئی ناچ گانے کی محفل سجا رہا ہے، کوئی این جی او کھانا کھلا رہی ہے، کوئی دوا تقسیم کر رہا ہے، اگر آپ دیکھیں تو یہ کوئی خدمت نہیں ہو رہی، بلکہ لوگوں کو میٹھا زہر دیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے اْن کے اندر محنت اور جستجو کی لگن ختم ہوتی جا رہی ہے، اْن کی عزت نفس اور خود اعتمادی ختم ہو رہی ہے، اور اس میٹھے زہر سے مرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ اب وہ اس تلاش میں رہتا ہے کہ کہیں سے مفت کھانے کو مل جائے تو کہیں سر چھپانے کے لیے کوئی چھت مل جائے، کیونکہ اب وہ کام کرنا ہی نہیں چاہتا، اور یہ این جی اوز اپنے مقاصد حاصل کر کے دین دشمن طاقتوں سے کروڑوں روپے حاصل کرتے ہیں، اس کی ایک وجہ ہمارے ملک کے کرپٹ حکمران بھی ہیں اس لیے پاکستان میں ان آزاد خیال این جی اوز کا مستقبل بہت روشن ہے کیونکہ حکومتی ادارے اپنی ذمے داری نبھانے میں ناکام ہیں، اور یہ این جی اوز عوام کی دْکھتی رگ پر ہاتھ رکھتی ہے تو لوگ ان کو اپنا مسیحا سمجھنے لگتے ہیں اور یہ این جی اوز ان کو دین سے دور لے جاتے ہیں اور غیر محسوس طریقے سے مغربی نظریات کو نہ صرف پھیلاتے ہیں، بلکہ اس کو فروغ بھی دیتے ہیں اور اس طرح دین کا قتل عام کرتے ہیں، جس کا بنیادی مقصد مشرقی روایات، تہذیبی ورثہ بالخصوص خاندانی نظام کو تباہ کرکے لوگوں کو مذہب سے دور کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے اسلامی تعلیمات میں ابہام اور فکری انتشار پیدا کرکے دین اسلام سے لوگوں کو بدظن کرنا شامل مقصود ہوتا ہے، بیش تر این جی اوز آزادی نسواں کے دل فریب نعرے بلند کرکے مادر پدر آزاد معاشرے کے قیام کے لیے سرگرم عمل ہیں، اس مقصد کے حصول کے لیے گھر سے فرار ہونے والی لڑکیوں کے تحفظ نسواں کے نام پر نہ صرف پشت پناہی کی جاتی ہے بلکہ انہیں مزید خاندان سے بغاوت پر آمادہ بھی کیا جاتا ہے جس سے گھر سے بھاگنے کے کلچر کو فروغ حاصل ہوتا ہے، پھر یہ این جی اوز مذہب کو انسان کا ذاتی مسئلہ قرار دینے کی بات کرتی ہیں، تو کبھی ریاست کو مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے کی مختلف تاویل پیش کرتی ہیں، تو کبھی انسانی حقوق کا شعور پیدا
کرنے کے نام پر اسلامی احکام و قوانین کے خلاف پروپیگنڈا کر کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو مذہب سے برگشتہ کرنے کی سعی میں مصروف عمل رہتا ہے، کبھی توہین رسالت کے قانون کے خاتمہ کا مطالبہ کرتا نظر آتا ہے اور کبھی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی آئینی ترمیم کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ دراصل یہی اسلام دشمن طاقتوں کے حقیقی اہداف ہیں جنہیں وہ اپنی این جی اوز کے ملازمین اور لادین افراد سے بیانات دلوا کر، میڈیا میں موجود اس قسم کا ذہن رکھنے والوں کو استعمال میں لا کر حاصل کرنے کی خواہش مند رہتے ہیں، اور ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے این جی اوز کو بھاری فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں، جس کے سبب ہمارا معاشرہ تیزی کے ساتھ تنزلی کا شکار ہوتا جا رہا ہے، ہماری بدقسمتی کہ چند شرپسند، خود غرض، مفاد پرست اور طاغوتی طاقتوں کے آلہ کار عناصر نے حصول زر کے لیے پاکستانی عوام اور مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنا شروع کیا پھر ان کو مذہب اور لاقانونیت کے نام پر اکسانے کے لیے سوشل میڈیا، الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کا استعمال کیا گیا اور ریاست میں موجود کالی بھڑیوں نے ان کا بھر پور ساتھ دیا، ان کے جائز اور ناجائز مطالبات کو من و عن تسلیم کر کے طرفین اپنے دنیاوی مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، اب ضرورت اس امر کی ہے، ہماری تہذیب و ثقافت کو اسلام دشمن ہتھکنڈوں سے بچانا ہمارا ولین فرض ہے، تاکہ اس دجل وفریب کے نظام کو پوری استطاعت سے ختم کیا جا سکے جس میں کسی قسم کی کوتاہی و غفلت کا ارتکاب نہ صرف وطن عزیزسے غداری اور بیوفائی ہے، بلکہ اسلام دشمنی بھی ہے، اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

اپنا تبصرہ لکھیں