دعوت کے میدان میں زبان کی اہمیت

محمد صادر ندوی

دعوت دین امت مسلمہ کا آفاقی مشن ہے۔ اس مشن کی تکمیل کے لیے عصری ذرائع کے ساتھ ایسی زبان کا استعمال بھی ضروری ہے، جسے مخاطب قوم بآسانی سمجھ سکتی ہو، اس کے لیے قرآن کریم میں ’لسان القوم‘کی تعبیر استعمال کی گئی ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی اور رسول کو ان کی قوم کی زبان میں بھیجا تاکہ وہ لوگوں کے سامنے حق کو واضح انداز میں پیش کر سکے اوران کے ذہن ودماغ میں کسی قسم کا التباس نہ رہ پائے۔ اس تحریر میں ’لسان القوم‘ کی روشنی میں گفتگو کرنے کے ساتھ دعوت کے لیے ا ٓسان زبان وبیان اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، ساتھ ہی ہندوستان میں بسنے والے مختلف تہذیب وثقافت کے حامل لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے ان کی مادری زبانوں میں لٹریچر کی تیاری پر ابھارا گیا ہے۔

زبان خدا کی عظیم نعمت

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ زبان کا حوالہ اپنی عظیم نعمت کے طور پر دیتا ہے:

أَلَمْ نَجْعَل لَّہُ عَیْْنَیْْن ٭وَلِسَاناً وَشَفَتَیْْن(البلد۸-۹)

(کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں نہیں بنائیں اور زبان اورہونٹ نہیں بنائے)

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے زبان کی شکل میں مافی الضمیر کی ادائیگی کا ایسا عمدہ نظام بنایا ہے کہ وہ بڑی آسانی سے اپنا مدعا بیان کر لیتا ہے اور دنیا کے کسی بھی گوشے میں بسنے والے افرادکو اپنا ہم نوا بنا لیتا ہے۔ اہل عرب کو اپنی زبان دانی پر بڑا ناز تھا، ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ یہ زبان جس پر تمھیں فخر ہے، وہ ہماری ہی دی ہوئی ہے۔ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ زبان کے اختلاف کو اپنی نشانی قرار دیتا ہے:

وَمِنْ آیَاتِہِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِکُمْ وَأَلْوَانِکُمْ(الروم ۲۲)

(آسمان وزمین کی پیدائش، زبان اور رنگ کا اختلاف اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے۔ )

قیامت کے دن جو اعضا انسان کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دیں گے، ان میں ایک زبان بھی ہے:

یَوْمَ تَشْہَدُ عَلَیْْہِمْ أَلْسِنَتُہُمْ وَأَیْْدِیْہِمْ وَأَرْجُلُہُم بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ (النور ۲۴)

(وہ اس د ن کو بھول نہ جائیں جب کہ ان کی اپنی زبانیں اور ان کے اپنے ہاتھ پاؤں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے)

زبان کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے انسانوں کی کام یابی وکامرانی اور دائمی فلاح ونجات کا رشتہ اسی سے منسلک بتایا ہے۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی اپنے دونوں ہونٹوں کے درمیان کی چیز(زبان کی حفاظت)کی ضمانت لے لے، میں اس کے لیے جنت کی ضمانت لیتا ہوں۱؎۔ ایک مرتبہ حضرت عقبہ بن عامر ؓنے آپ سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! نجات کیسے ممکن ہے؟آپ نے جواب دیا: أمسک علیک لسانک۲؎(اپنی زبان کو قابو میں کر لو)

معاصر دنیا میں زبان کی اہمیت

زبان انسانی معلومات کو ایک دوسرے تک منتقل کرنے اور پیغام پہنچانے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔زبان کا مطالعہ افراد اور قوموں کی ترجیحات اور ان کی نفسیات سے آگہی دیتا ہے، کسی بھی قوم کے تہذیبی ارتقا اور عہد بہ عہد اس کے عروج وزوال کا جائزہ لینے میں زبان کی حیثیت اہم معاون کی ہوتی ہے۔یہ تہذیب وثقافت کا نمایاں عنصر اور شخصیت کی تعمیر کاذریعہ ہے، اس کی مدد سے تعلیمی اور تہذیبی سرمایے محفوظ کیے جاتے ہیں۔ تعلیم،صحافت،سیاست،سفارت،تجارت ومعیشت،بین الاقوامی تعلقات،غرض ہر میدا ن میں زبان کے کلیدی کردار کو تسلیم کیا جاتا ہے اور مخاطب تک آسان سے آسان انداز میں اور ان کی قومی زبان میں اپنی بات پہنچانے کے لیے مختلف ٹول اورڈوائس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ زبان متعدد ثقافتوں کے سلسلے میں نئی دریافت کا اہم ذریعہ بھی ہے۔ مشہور اسپینی شاعر یوآن ریمون جیمینز (Juan Rámon Jiménez)کا قول ہے :

Learn a new language and get a new soul

(نئی زبان سیکھو اور نئی روح حاصل کرو)

یعنی جب انسان کسی نئی زبان سے آشنا ہوتا ہے تواپنی ذات میں ایک نئے وجود کو محسوس کرتا ہے۔نئے خیالات، نئے افکار،غور وفکر کے نئے زاویے،نئی قدریں اور نئی جہتیں اس کے سامنے آشکارا ہوتی ہیں۔

اسی طرح یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ معاصر دنیا میں مادری زبان کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے،۲۰۰۲ء سے عالمی طور پر ۲۱؍فروری کو مادری زبان کا دن قرار دیا جاتاہے۔

قومی و بین الاقوامی زبانوں کی بڑے پیمانے پر ترویج واشاعت اور ان کے پہلو بہ پہلو علاقائی مادری زبانوں کواہمیت دینے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے لیے تعلیم وتعلم، تجارت ومعیشت اور پیغام رسانی آسان ہوجائے۔ اس اعتبار سے دعوتی میدان میں کام کرنے والوں کے لیے یہ غور وفکر کا پہلو ہے کہ اپنی بات مخاطبین تک پہنچانے کے لیے ایسی کون سی زبان کا استعمال کیا جائے جس کو مخاطب آسانی سے سمجھ جائے۔

انبیا اور رسولوں کی بعثت- قوم کی زبان میں

دعوت دین کا کام اپنی پوری آب وتاب اور مکمل وضاحت کے ساتھ لوگوں تک پہنچے، اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام فرمایا کہ ہر رسول کی بعثت اس کی اپنی قوم کی زبان ہی میں ہوئی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَہُم(ابراھیم ۴)

(اور ہم نے جب بھی کوئی رسول بھیجا، خود اس کی قوم کی زبان میں بھیجا، تاکہ وہ ان کے سامنے حق کو اچھی طرح واضح کرسکے)

رسولوں کو ان کی قومی زبان میں مبعوث کرنے کی حکمت اس آیت کریمہ میں واضح کر دی گئی ہے کہ خدا کے پیغام کی تبلیغ کے لیے جس طرح انسانوں میں سے رسولوں کا ہونا ضروری ہے، تاکہ لوگ جنس کے اختلاف کو بنیاد بناکر دعوت حق سے روگردانی نہ کر سکیں،اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اس پیغمبر کی زبان بھی اسی قوم کی زبان ہو، تاکہ حق کو سمجھنے میں کسی قسم کا التبا س نہ رہ پائے۔سورہ مریم میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتاہے:

فَإِنَّمَا یَسَّرْنَاہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِیْنَ وَتُنذِرَ بِہِ قَوْماً لُّدّاً(مریم۹۷)

(پس ہم نے اس کتاب کو تمھاری زبان میں اس لیے سہل وسازگار بنایا کہ تم خدا ترسوں کو بشارت پہنچادو اور جھگڑالو قوم کوآگاہی سنادو)

یہاں پر ایک سوال یہ اٹھتاہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوں کو ان کی قوم کی زبان میں بھیجا تو آخری پیغمبر کو عربی زبان میں کیوں مبعوث کیا، اس اعتبار سے تو آپ کی دعوت عربوں ہی تک محدود ہونی چاہیے۔اس کاایک جواب علامہ شوکانیؒ نے اس طرح دیا ہے :

’’اگر چہ اللہ کے رسولﷺ کی بعثت جن وانس سب کے لیے ہوئی ہے؛لیکن چوں کہ آپ کی پہلی مخاطب قوم عرب تھی، اس لیے دوسری زبان کے مقابلہ میں خود ان کی زبان میں نبی کی بعثت زیادہ مناسب تھی،اور ان کے ذمہ یہ کام سونپا گیا کہ دوسری زبانوں کی حامل اقوام کے سامنے اس دین اسلام کی مکمل تعبیر کردیں۔ ‘‘۳؎

گذشتہ آیت سے یہ نتیجہ اخذہوتا ہے کہ دنیا کے ہر خطہ میں بسنے والی تمام قوموں کو انھی کی زبان میں دعوت دی جائے، تبھی تبلیغ رسالت کا حق ادا ہوگا۔اس میں قومی اور بین الااقوامی زبانوں کے علاوہ علاقائی زبانیں بھی شامل ہوں گی۔ چناں چہ اگر کوئی قوم انگریزی زبان سے واقف ہے تو انھیں انگریزی میں، اگر کوئی ہندی سے واقف ہے تو ہندی میں، اگر کوئی شخص صرف علاقائی زبان جانتا ہے تو اس کی زبان ہی میں اس تک دعوت پہنچانا ضروری ہوگا۔

مخاطب کے لحاظ سے آسان زبان کا انتخاب

’’لیبین لھم‘‘ کی حکمت میں صرف قوم کی زبان میں دعوت دینا شامل نہیں ہے، بلکہ اس میں مخاطب کے لحاظ سے آسان سے آسان تر اسلوب کا اختیار کرنا بھی شامل ہے۔حضرت موسیٰ ؑ کے واقعہ میں اس کی صراحت ملتی ہے کہ جب انھیں فرعون کے دربار میں دعوت کے لیے جانے کا حکم ہوا تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی زبان کی لکنت دور فرمانے کی دعا کی، مزید اس کار عظیم کے لیے اپنے بھائی ہارون کو اپنا معاون ومددگار بنانے کی درخواست بھی کی تاکہ دعوت کو پہنچانے میں کوئی پریشانی لاحق نہ ہو اور اگر ان کی طرف سے تکذیب کامرحلہ درپیش ہو تو اس کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کیا جائے :

وَأَخِیْ ہَارُونُ ہُوَ أَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَاناً فَأَرْسِلْہُ مَعِیَ رِدْء اً یُصَدِّقُنِیْ إِنِّیْ أَخَافُ أَن یُکَذِّبُون(القصص۳۴)

(اور میرے بھائی ہارون کی زبان مجھ سے زیادہ صاف ہے، اس لیے ان کو بھی میرے ساتھ مددگار بناکر بھیج دیجیے کہ وہ میری تائید کریں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے)

اس تناظر میں واعظین، مصلحین اور داعیانِ دین کو اپنی تعبیرات، اصطلاحات، الفاظ وکلمات اور جملوں کی ساخت پر غور کرنا چاہیے، جو وہ مسلم وغیر مسلم عوام کو خطاب کرتے وقت استعمال کرتے ہیں۔ برصغیر کے تناظر میں مسلم مفکرین نے اس جانب بار بار توجہ دلائی ہے کہ ایک داعی کا مقصد صرف حقیقت کو ظاہر کردینا ہی نہیں ہوتا،بلکہ یہ مقصد ہوتا ہے کہ اس حقیقت کو اس طرح آشکارا کردیا جائے کہ خواص بھی اس کو اچھی طرح سمجھ لیں اور عوام کے لیے بھی اسے سمجھنے میں کوئی دقت نہ ہو۔آسان زبان کے استعمال کے سلسلے میں جوغفلت اور کوتاہی پائی جاتی ہے، اس کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:

’’ہمارے ملک میں دعوت دین کی اس مظلومیت پر ترس آتا ہے کہ یہاں جو حضرات اس فرض کو انجام دے سکتے تھے، یعنی علمائے دین، وہ ہمیشہ اپنی کج مج بیانی کے لیے بدنام رہے ہیں۔ اولاً تو یہ حضرات اس زبان میں لکھنے اور بولنے ہی کو کسرشان سمجھتے رہے ہیں، جس زبان کو یہاں’ لسان القوم‘ کی حیثیت حاصل تھی۔ ثانیاً اگر اس میں انھوں نے لکھنا او ر بولنا شروع بھی کیا تو ان کی ایک خاص زبان بن گئی جو اپنی ثقالت، اپنی خشکی،اور اپنی غیر ضروری طوالت یا اپنے مانع فہم اختصارکے لیے مشہور ہے۔ یہاں تک کہ کسی کتاب سے لوگوں کو بدگما ن کرنے کے لیے یہ فقرہ بالکل کافی ہوتا ہے کہ اس کا طرز تحریر بالکل ’مولویانہ‘ ہے۔‘‘۴؎

زبان کے سلسلے میں یہ کوتا ہی اگرچہ تمام لوگوں پر صادق نہیں آتی، لیکن اس اعتراف سے کوئی چارہ نہیں کہ واعظین اور مبلغین کی اکثریت اس کوتاہی میں مبتلا ہے۔ غیر مسلموں کے سامنے تو دورخودمسلم عوام کو بھی بسا اوقات علما کے خطابات ذرا سمجھ میں نہیں آتے۔ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ ہر زبان میں استعارے،کنایے اور ادبی تمثیلات ہوتی ہیں، جن کے استعمال سے مخاطب کو جھنجھوڑا جا سکتا ہے، ان کے اندر جوش وولولہ پیداکیا جا سکتا ہے؛لیکن قرآن مجیدکے عمومی استعمال میں سہل اسلوب نمایاں ہے۔ یہی خصوصیت آخری پیغمبرﷺ کے کلام میں بھی تھی کہ اختصار اور فصاحت کے باوجود آپ کی بات ایک چھوٹا سا بچہ بھی سمجھ لیتا تھا۔حضرت علی ؓکا قول ہے:

’’ حدثواالناس بما یعرفون، أ تریدون أن یکذب اللہ ورسولہ۔‘‘۵؎

(لوگوں کو وہ باتیں بتاؤ جو وہ سمجھ سکتے ہیں، کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسولﷺکو جھٹلایا جائے۔) یعنی لوگوں کی ذہنی سطح کا خیال رکھ کر ہی بات کرنی چاہیے، بصورت دیگر ایسا ہو سکتا ہے کہ انھیں کوئی دین کی بات بتائی جائے جو ان کی سمجھ سے پرے ہو اور پھر وہ اس کا کچھ اور مطلب سمجھ لیں، اس طرح ایسی باتیں فائدے کے بجائے فتنہ کا سبب بن سکتی ہیں۔

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے قول میں یہ ہدایت اور واضح ہو کر سامنے آتی ہے:

ما أنت بمحدث قوما حدیثا لا تبلغہ عقولھم الا کان لبعضھم فتنۃ۶؎

(اگر تم لوگوں سے ایسی باتیں کرو جہاں تک ان کی عقلی رسائی نہیں ہے تو پھر یہ باتیں کچھ لوگوں کے لیے فتنہ بن سکتی ہیں)۔

لسان القوم کی وسعت

لسان القوم کے دائرے میں یہ بھی شامل ہے کہ مدعو کی نفسیات، اس کے سماجی وسیاسی مسائل اور دینی حالات وغیرہ سے بھی واقفیت ہو۔ڈاکٹر محمد عبد الحلیم بیشی نے سیرت رسول ﷺ کی روشنی میں درج ذیل چیزوں کو لسان القوم کے ضمن میں شامل کیا ہے:

مخاطب کی دینی صورت حال سے واقفیت

لغوی اور ادبی باریکیوں سے واقفیت

قوموں کے رسوم ورواج اور عرف وعادات سے واقفیت

زمانے کی مشکلات اور مسائل سے واقفیت۷؎

سیرت طیبہ سے بھی یہ رہ نمائی فراہم ہوتی ہے کہ جن لوگوں کواپنی دعوت کا مخاطب بنایا جائے، پہلے ان کی دینی صورت حال سے اچھی طرح واقفیت حاصل کر لی جائے اور ان میں قدر مشترک کو بنیاد بناکر دعوت دی جائے۔ اللہ کے رسول ﷺنے جب حضرت معاذ بن جبل ؓکو یمن کی طرف روانہ فرمایاتو آپ نے ان کے سامنے یہ واضح فرما دیا کہ دیکھو جن لوگوں کی طرف تم جا رہے ہو، وہ پہلے ہی سے آسمانی کتاب کی حامل ہیں، لہذا تم انھیں سب سے پہلے ایک اللہ کو ماننے کی دعوت دینا۔

اس حوالہ سے سیرت طیبہ میں ایک اور دل چسپ تذکرہ ملتا ہے جس سے اللہ کے رسول ﷺ کی مختلف ادیان ومذاہب سے متعلق دینی معرفت کا اندازہ ہوتا ہے۔ حضرت عدی بن حاتمؓ مدینہ تشریف لائے تو لوگوں نے ان کو اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی، انھوں نے جواب میں کہا : میں پہلے ہی سے ایک مذہب کا پیروکار ہوں۔ اس پراللہ کے رسولﷺ نے جواب دیا : میں تمھارے دین کے بارے میں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ پھر آپ نے ان سے کہا : کیا تم اپنی قوم کے سردار نہیں ہو؟ انھوں نے جواب دیا : کیوں نہیں !پھر آپ نے کہا : کیا تمھارا تعلق رکوسی فرقہ(نصاریٰ اور صائبین کے عقائد سے ملتا جلتا مذہب اور مسلک رکھنے والا فرقہ) سے نہیں ہے؟ انھوں نے اس کا بھی اعتراف کیا، پھر آپ نے کہا : یہ بھی سچ ہے کہ تم مال غنیمت کا چوتھائی کھا تے ہو، حالاں کہ یہ تمھارے دین میں حرام ہے؟حضرت عدی کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی یہ بات سن کرمجھے شرمندگی ہوئی اور میرا سر جھک گیا۔۸؎

اس واقعہ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح اللہ کے رسول ﷺ نے ان کی نبض پر ہاتھ رکھااور انھوں نے اپنے متبع دین ہونے کا جو دعویٰ کیا تھا، اس کی عمارت یکایک منہدم ہوگئی۔

علاقائی اور مادری زبانوںمیں دعوت

دعوت دین کے لیے علاقائی اور مادری زبانوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔اگر صرف ہندوستان کا جائزہ لیا جائے توآبادی کے لحاظ سے ہمارا ملک اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، جہاں تمام بڑے مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں۔اس ملک میں ۱۲۱؍ زبانیں ایسی ہیں جنھیں دس ہزار یا اس سے زیادہ بولنے والے لوگ ہیں۔ جب کہ سب ملاکر ملک بھر میں ۱۹۵۰۰(انیس ہزار پانچ سو)مختلف مادری زبانیں بولی جاتی ہیں۔ایسے موقع پر دعوت کی کام یابی کے لیے ضروری ہے کہ ہر چھوٹی بڑی زبان کے جاننے والے ماہرین موجود ہوں، تبھی دعوت کا فریضہ کما حقہ ادا ہو سکے گا۔۱۹۳۷ء میں جامعہ دارالسلام عمر آباد میں تقسیم اسناد کے موقع پر وہاں کے فارغین سے خطاب کرتے ہوئے علامہ سید سلیمان ندوی نے جن ضرورتوں کا ان کے سامنے ذکر کیا تھا، ان میں ایک چیز یہ بھی تھی کہ علما مقامی زبانوں میں بھی مہارت حاصل کریں، تاکہ ہندوستان کی وسیع وعریض آبادی تک دین کا پیغام بہتر طریقہ پر پہنچا یا جا سکے:

’’آج جہاں مذہبی علوم کی واقفیت کے لیے عربی جاننا شرط ہے، وہا ں اس علم دین کے پھیلانےاور اس کے پیغام حق کو پہنچانے کے لیے آس پاس کی دیسی زبانو ں کا جاننا بھی از بس ضروری ہے۔جہاں ہم کو اپنے پورے ملک کے حالات جاننے اور آپس میں ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال کرنے کے لیے ہندوستانی زبان سیکھنا ضروری ہے، اسی طرح مسلمانوں کو اپنے دیس کی مقامی زبانوں میں لیاقت پیدا کرنا بھی ضروری ہے، تاکہ وہ اس زبان کے بولنے والے مسلمانوں کو اپنی تقریر وتحریر سے فائدہ پہنچا سکیں، اس زبان میں اسلامی معلومات کی کتابیں لکھ سکیں، قرآن پاک، ضروری احادیث،اور فقہ کی ضروری معلومات کو اس زبان میں منتقل کر سکیں۔‘‘۹؎

اپریل ۱۹۴۷ء کے اجتماع مدراس میں مولانا مودودیؒ نے اس پر خصوصی توجہ دلائی کہ ہمارے ارکان وکارکنان ہندوستان کی ان مقامی زبانوں کو سیکھیں جو آئندہ تعلیم اور لٹریچر کی زبان بننے والی ہیں۔ اس سلسلے میں آپ نے ہندوستا ن کے مختلف خطوں کی نشان دہی کرتے ہوئے کہاکہ وہاں کی مقامی زبانوں میں اسلامی لٹریچر کی تیاری کا کام شروع کردیا جائے۔ مزید آپ نے اس حقیقت کو آشکارا کیا کہ:

’’ اگر مسلمان اپنی قومی عصبیت کی بنا پر صرف اردو تک اپنی تحریروتقریر کو محدودرکھیں گے تو ملک کی عام آبادی سے بیگانہ ہوکر رہ جائیں گیاور ان کے پاس اپنے کروڑوں ہمسایوں کو ہم خیال بنانے کا کوئی ذریعہ نہ ہوگا۔‘‘۱۰؎

ہندوستان کی علاقائی زبانوں میں عیسائی مشنریوں کی سرگرمیاں

داعیان دین کے لیے اس میں بڑا سبق ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کا سب سے بڑا حریف ہندوستانی زبانوں کے سلسلے میں نہایت ہی سرگرم اور متحرک ہے۔کرسچن مشنریوں نے ہندی، بنگالی،تمل،سنتھالی وغیرہ میں ڈکشنریوں اور گرامر کی تیاری کے علاوہ یہاں کی دیگر علاقائی زبانوں میں بھی بڑے کارنامے انجام دیے ہیں۔یہ کام انھوں نے آج نہیں بلکہ مغل دور ہی میں شروع کر دیے تھے، اس حوالے سے ایک نمایاں نامSir William Carey کا ہے، جو ۱۷۹۲ میں انگلینڈ سے انڈیا آئے، یہاں وہ کلکتہ کے گورنر کالج میں بیک وقت بنگالی، سنسکرت اور مراٹھی زبان کے پروفیسر ہوئے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی ہندوستان کی مختلف زبانوں میں ڈکشنریوں اور گرامر کی کتابوں کی تیاری میں صرف کر دی۔۱۱؎

زبان کے سلسلے میں انجام دی جانے والی خدمات کے دو بڑے فائدے ہو سکتے ہیں، ایک تو خود اپنے لٹریچر کی اشاعت اور اپنی دعوت ا ن تک پہنچانا آسان ہو جاتاہے اور دوسرا بڑا فائدہ اس زبان کی حامل قوم کی محبت وعنایت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ دعوتی میدان میں کام کرنے والوں کے لیے مذکورہ دونوں فوائدبڑے اہم ہیں۔

اس وقت جب کہ ملک عزیز میں مختلف طرح کے پروپیگنڈا کے ذریعے اسلام کی شبیہ کو بگاڑنے کی کوشش زوروں پر ہے۔ اسلامی تاریخ کو دہشت گردی اور تشددسے متصف کرنا اسلام مخالف عناصر کا مشن بن چکا ہے۔ غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت ان پروپیگنڈوں سے متاثر ہوکر دین سے بے زار ہوجاتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان تک قرآن وسنت اور اسلامی تاریخ کی راست معلومات نہیں پہنچائی گئیں۔ ایسے موقعے پر داعیان دین اورمصلحین وواعظین پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وعظ وخطابت کے لیے آسان سے آسان تر زبان اختیار کریں، خاص طور پر ہندوستانی مسلمان مقامی زبانوں میں لٹریچر کی اشاعت پر زور دیں، یہ ان کی طرف سے دعوت دین کی راہ میں گراں قدر خدمت ہوگی اور اس سے ان شاء اللہ اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے اور اہل وطن کی غلط فہمیاں دور کرنے کی راہیں بھی ہم وار ہوں گی۔

حوالہ جات:

۱۔بخاری، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان۶۴۷۴

۲۔ترمذی،ابواب الزھد، باب ماجاء فی حفظ اللسان۲۴۰۶

۳۔شوکانی، فتح القدیر،سورہ ابراہیم، آیت۴

۴۔امین احسن اصلاحی، دعوت دین اور اس کا طریقۂ کار،مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی۱۹۸۷ء،ص۹۳-۹۴

۵۔بخاری، کتاب العلم، باب من خص بالعلم قوما دون قوم کراھیۃ أن لا یفھموا،رقم ۱۲۷

۶۔ مسلم، مقدمہ،رقم ۱۴

۷۔محمد عبد الحلیم بیشی، لا یبعث الرسول الا بلسان قومہ https: //shorturl.at/oryD2

۸۔شمس الدین ذہبی،سیر اعلام النبلاء۔ مؤسسۃ الرسالۃ، الطبعۃ الثالثۃ ۱۹۸۵ء، جلد ۳، ص۱۶۳

۹۔معارف نمبر ۱، جلد ۴۱،جنوری ۱۹۳۸ء ص۱۸

۱۰۔
ابو الاعلیٰ مودودی،ہندوستان میں تحریک اسلامی کا آئندہ لائحۂ عمل، مکتبہ جماعت اسلامی، دارالاسلام، پٹھان کوٹ، ۱۹۴۷ء، ص۳۶

  1. International Journal of Applied Research 2017; 3(8): Dr. Amita Esther David,Contribution of the Christian missionaries to the Indian languages, p: 975,97
اپنا تبصرہ لکھیں